No module Published on Offcanvas position
Gulshan-e-Iqbal, Karachi +92 30112 30647

ازواج مطہرات

(0 Votes)

فضیلتِ ازواج مطہرات قرآن کریم کی روشنی میں

" اے نبیﷺ! ہم نے آپﷺ کے لیے آپ ﷺکی ازواج (مطہرات ) جن کو آپﷺ ان کے مہر دے چکے ہیں۔حلال کی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو تمھاری مملوکہ ہیں۔جو اللہ نے غنیمت میں آپﷺ کو دلوا دی ہیں۔اور آپ ﷺکے چچا کی بیٹیاں اور آپﷺ کی پھوپھی کی بیٹیاں اور آپﷺ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپﷺ کی خا لاﺅں کی بیٹیاں بھی جنھوں نے آپﷺ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے نبی کو دےدے۔بشرطیکہ نبیﷺ اس کو نکاح میں لانا چاہیں۔یہ سب آپ ﷺکے لیے مخصوص کیے گئے ہیںنہ اور مومنین کے لیے۔ہم کو وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے ان پر ان کی ازواج اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیے ہیں۔تا کہ آپﷺ پر کسی قسم کی تنگی واقع نہ ہو۔اور اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ان میں سے آپﷺ جسکو چا ہیں اور جب تک چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو دور کر رکھا تھا۔ان میں سے پھر کسی کو طلب کریں۔تب بھی آپ ﷺپر کوئی گنا ہ نہیں، اس میں ذیا دہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔اور آزردہ خا طر نہ ہو ں گی۔اور جو کچھ بھی آپﷺ ان کو دے دیں گے اس پر سب کی سب راضی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ تمھا رے دلوں کی سب باتیں جانتا ہےاور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے بردباد ہے۔انکے علاوہ اور عورتیں آپﷺ کے لیے حلال نہیں ہیں۔اور نہ یہ درست ہے کہ آپﷺ ان (موجودہ )ازواج کی جگہ دوسری بیبیاں کر لیں۔اگر چہ آپ ﷺکو ان( دوسریوں) کا حسن اچھا معلوم ہومگر جو آپﷺ کی مملوکہ ہو اور اللہ تعا لیٰ ہر چیز کا پورا نگران ھے " ﴿سورة احزاب ۰۵ تا ۲۵﴾

چار سے زائد بیویاں رکھنا

چار سے زائد بیویاں رکھنا آپﷺ کے خصائص میں سے ہے۔آپ ﷺ جس عورت سے بھی چاہیں نکاح فرما سکتے ہیں۔یہ آپ ﷺ کے لیے حلال ہے۔امام بہیقی اپنی سنن میں روایت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس دن حضور نبی کریم ﷺ کی عم زاد ،پھوپھی زاد،خالا زاد اور ماموں زاد حضور ﷺ کے لیے حلال فرمائیںاس دن آپ ﷺ کی متعدد ازواج مطہرات ہو نے کے با وجود وہ خواتین بھی حلال فر ما دیں جو شادی شدہ نہیں ہیں۔

باطنی محا سن و کما لات اور معجزات سے رو شناس ہونا


علامہ قر طبی اپنی تفسیر میں روایت فر ماتے ہیں کہ چار سے زائد ازواج مطہرات ہو نے سے ایک فا ئدہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے با طنی محا سن و کما لات کا نقل کرنا ہے۔اس لیے کہ حضور نبی کریم ﷺ ظا ہر و با طن دونوں کی تکمیل فرما نے والے ہیں۔
چنانچہ جس طرح مردوں کے ذریعے آپﷺ کے ظاہری کما لات ظاہر ہو تے ہیں اسی طرح آپﷺ کی ازواج کے ذریعے باطنی کما لات و معجزات آشکار ہو تے ہیں۔اور شریعت کے ان احکام کا نقل کرنا جن سے مرد مطلع نہ ہو سکے تھے۔

زیادتئ ثواب کا با عث

کثرت ازواج مطہرات آپ کے لیے ثواب کی ذیا دتی کا با عث ہیں۔اس لیے کہ رسا لت کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا نے کے با وجود پھر بھی ان کے حقوق کی نگہداشت رکھنا ،اس میں مشقت و تکلیف کا ذیا دہ سا منا کرنا ہوتا ہے جو کہ ثواب کی کثرت کا باعث بنتا ہے نیز یہ کہ حضور نبی کریم ﷺ کا نکاح فرمانا عبا دت ہے۔
اس کے علا وہ حضور سرورِ کا ئنات ﷺ کے سسرالی رشتہ کے با عث قبائل کا با عزت و با برکت ہونا ہے۔اور ازواجِ مطہرات کی کثرت کے سبب آپﷺ کا سینہءاطہر دشمنانِ اسلام کی طرف سے پہنچائی گئی تکالیف سے ہلکا ہو جاتا تھا۔

ارشا دِ با ری تعالی

٭ "اے نبی ﷺ کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو۔تو تم (نا محرم مرد سے) بولنے میں (جبکہ ضرورت کے تحت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس سے ) ایسے شخص کو (طبعاً) خیال (فا سد پیدا ) ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے۔اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہواور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موا فق مت پھرو۔اور تم نما زوں کی پا بندی رکھواور زکوةٰ دیا کرو اور اللہ کا اور اسکے رسول کا کہنا مانو،اللہ کو یہ منظور ہے (کہ اے نبیﷺ کے )گھر والو !تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہر طرح ظاہراً و با طن ً) پاک و صاف رکھے اور ان آیا تِ الہیٰہ اور اس علم (احکام) کو یاد رکھو جس کا تمھارے گھروں میں چرچا رہتا ہے۔بے شک اللہ راز دان ہے پورا ۔خبردار ہے۔"(سورة احزاب ۲۳ تا ۴۳)
قرآن پاک کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺکی ازواج مطہرات سب عوررتوں سے افضل ہیں۔اور جس عظیم منصب پر وہ سر فراز ہیں بے شک وہ بھی اعلیٰ اور سر فراز ہے۔
٭ "اے نبیﷺ ! جس چیز کو اللہ نے آپﷺ کے لیے حلال کیا ہے آپ (قسم کھا کر )اس کو ( اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں۔(پھر وہ بھی ) اپنی بیبیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہر بان ہے۔اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھاری قسموں کا کھولنا (یعنی قسم توڑنے کے بعد اس کے کفارہ کا طریقہ ) مقرر فرما دیا ہے اور اللہ تمھارا کار ساز ہے۔اور وہ بڑا جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔اور جبکہ پیغمبر ﷺ نے اپنی کسی زوجہ (مطہرہ) سے ایک بات چپکے سے فرمائی پھر جب اس بی بی نے وہ بات (دوسری بی بی کو) بتلا دی اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے (بذریعہ وحی) اس کی خبر کر دی تو آپ ﷺ نے (اس ظاہر کر دینے والی بی بی کو)تھوڑی سی بات جتلا دی اور تھوڑی سی بات کو ٹال گئے۔سو جب پیغمبرﷺ نے اس بی بی کو جتلائی وہ کہنے لگی کہ آپ ﷺکو اسکی کس نے خبر کر دی آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو ( خدائے) علیم و خبیر نے خبر کر دی ( اے پیغمبر ﷺ کی) دونوں بیبیو!اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کر لو تو تمھارے دل مائل ہو رہے ہیں (اللہ کی طرف ) اور اگر ( اسی طرح) پیغمبرﷺ کے مقابلہ میں تم دونوں کاروائیاں کرتی رہیں تو( یاد رکھو کہ) پیغمبر ﷺ کا رفیق اللہ ہے اور جبرئیل ؑ ہے اور نیک مومنین ہیں۔اور (ان کے علاوہ)فرشتے(آپﷺ کے ) مدد گار ہیں۔اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دےدیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمھارے بدلے ان کو تم سے اچھی ازواج (مطہرات) دےدے گا۔جو اسلام والیاں ،ایمان والیاں، فرمابر داری کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں،عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں گی کچھ بیوہ اور کچھ کنواریاں۔" (سورة التحریم ۱ تا ۵ )
مذکورہ بالا آ یات کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور ﷺ اپنی ازواج مطہرات پر بے حد شفقت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات انکی خوشنودی کی خاطر کوئی ایسی چیز کھانی ترک فر ما دیتے جو آپﷺ کو پسند ہوتی ،اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی شفقت کو تو پسند فرمایا لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی فرما دیا کہ اس چیز کو اعتدال تک ہو نا چاہیے۔اور حلال چیز کو حرام کر لینا ٹھیک نہیں۔


حدیثِ مبارکہ میں آپﷺ کا شہد ترک کرنے کے بارے میں بیان

بخاری شریف میں اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے،حضرت عائشہ rrrبیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کو شہد اور حلوہ بہت مرغوب تھے آپﷺ کی عادت مبا رکہ تھی کہ جب عصر سے فارغ ہوتے تو ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے۔ان میں سے کسی ایک کے ساتھ چہل بھی فرماتے،ایک دن جب آپﷺ حضرت حفصہؓrrr کے گھر تشریف لے گئے تو وہاں پر آپﷺ معمول سے ذیادہ دیر ٹھہر ے رہے میں نے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہؓ rrrکی قوم کی کسی عورت نے ان کو شہد کی ایک کپی تحفہ کے طور پر دی ہے۔انہوں نے حضور ﷺکو اس میں سے شربت پلا کر زیادہ دیر تک روک لیا (چنانچہ )میں نے اس بارے میں قسم کھائی کہ میں اس کے جواب میں منصوبہ بناؤں گی۔میں نے اس سلسلے میں حضرت سودہ بنتِ زمعہrrr سے کہا کہ جب حضور ﷺ تمھارے پاس تشریف لائیں تو کہنا کہ کیا آپﷺ نے مغافیر کھایا ہوا ہے(انتہائی بدبو دار گوند کا نام ہے،جس کے نام لینے کا مقصد یہ تھا کہ آپﷺ اس سے کراہت فرمائیں )آپﷺ فرمائیں گے کہ نہیں تو پھر کہنا کہ آپﷺ سے یہ بدبو کیسی آ رہی ہے؟آپﷺ فرمائیں گے کہ میں نے تو حفصہؓrrr کے ہاں سے صرف شہد کل شربت پیا ہے۔تب کہنا ،یوں لگتا ہے کہ شہد کی مکھی عرفت کے درخت سے بھی رس چوس کر آ ئی ہوگی(عرفط ؒجھاڑی دار درخت ہے جس سے بدبو دار گوند مغافیر حاصل ہوتی ہے)اور میں بھی ایسا ہی کہوں گی۔پھر حضرت صفیہؓrrr سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی منصوبہ کے مطابق ایسا ہی کہیں۔ ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک حضور سرورِکائناتﷺ تشریف لے آئے۔اس وقت میرے دل نے چاہا کہ آپﷺ کو منصوبہ کے بارے میں بتا دوں ۔لیکن اتنی دیر میں آپﷺ حضرت سودہ ؓrrrکے قریب آ گئے اور انہوں ے کہا ،یا رسول اللہ ﷺ!کیا آپ مغافیر نوش فرما کر آ رہے ہیں؟آپﷺ نے فرمایا نہیں،پھر انہوں نے کہا تو آپ ﷺ کے دہنِ پاک سے یہ بدبو کیسی آرہی ہے،آپﷺ ے فرمایا کہ میں نے تو حفصہؓ کے یہاں سے فقط شہد پیا ہے۔پھر انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے شہد کی مکھی عرفط کے درخت سے رس چو کر آئی ہو پھر آپﷺ نے میری جانب توجہ فرمائی تو میں نے بھی اسی طرح کہا اس کے بعد جب آپﷺ حضرت صفیہ ؓrrrکی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا ،اگلے روز جب آپﷺ حضرت حفصہؓrrr کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے شہد پینے کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے حاجت نہیں،اس پر حضوت سودہ ؓrrrنے کہا اللہ کی قسم ! ہم نے اسے ان کے لیے حرام کروا دیا ۔میں نے انہیں کہا کہ خاموش رہیں۔
سورة تحریم میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علیم و خبیر ہے۔حضور ﷺ اپنی ازواج مطہرات پر بے حد اعتماد فرماتے تھے اور ان کو اپنے رازوں میں شریک فرمایا کرتے تھے اور اگر کبھی ان سے راز کی حفاظت میں کوتاہی ہو جاتی تو آپﷺ اس طرح سرزنش فرماتے کہ ان کی سمجھ میں بھی آ جاتی اور ناراضی کا پہلو بھی سامنے نہ آتا ۔
٭ "اے نبیﷺ کی بیبیو!جو کوئی تم میں کھلی ہوئی بے ہودگی کرے گی اس کو دوہری سزا دی جائے گی اور یہ بات اللہ کو آسان ہے اور جو کوئی تم میں اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس اسکا دہرا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے ایک عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے۔"
(احزاب ۰۳ تا ۱۳)
قرآن ِپاک کی مذکورہ بالا آیات اس امر کی غماز ہیں کہ جب ازواج مطہرات سارے جہان کی عورتوں سے افضل ٹھہریں تو یہی وجہ ہے کہ اچھے اعمال پر انھیں دگنا ثواب ہے ا ور تقرب الی اللہ کے منافی امور اگر بتقا ضائے بشری ان سے وقوع میں آئیں تو ان پر سرزنش بھی دگنی ہے۔اس لیے کہ ان کی فضیلت و برتری کی وجہ سے دوسری عورتوں کی بہ نسبت ان پر حد بھی دگنی ہوگی۔جیسے آزاد کی حد غلام سے دگنی ہوتی ہے۔لیکن ایک بات کا یقین کر لینا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ ازواج مطہرات بے حیائی سے مکمل طور پر محفوظ ہوتی ہیں اور یہ حضور نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کے سبب ہے کہ جس خاتونِ پاک کو حضور سرورِکونینﷺ کی زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف حاصل ہو وہ دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہوگئی۔

آپﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دینا

امام ابن سعدrrrؒنے حضرت ابو جعفر ؓrrrسے روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات نے شکوہ کیا کہ آپﷺ کی ازواج سے کم مہر والی کوئی عورت نہیں ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے لیے غیرت کھائی اور حکم دے دیا آپﷺان سے علیحدگی فرما لیں۔چنانچہ آپﷺ تمام ازواج مطہرات سے ۹۲ دن علیحدہ رہے ا س کے بعد اللہ نے حکم فرمایا کہ اب آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کہ اختیار دےدیں ۔چنانچہ آپﷺ نے سب کو اختیار مرحمت فرما دیاچنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا۔
٭ "اے نبیﷺ! آپ اپنی ازواج (مطہرات) سے فر ما دیجیے کہ تم اگر دینوی زندگی (کا عیش) اور اس کی بہار چاہتی ہو توآ ؤ میں تم کو کچھ مال و متاع (دینوی) دے دوں اور تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کروں اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور اس کے رسول کو اور عالم ِ آخرت کو تو تم سے نیک کرداروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے"۔ (سورة احزاب ۸۲ تا ۹۲ )
پھرجب اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب کی مذکورہ آیات نازل فرمائیں تو آپﷺ نے اس کے بتانے کی ابتدا ءحضرت عائشہ ؓ سے کی اور ارشاد فرمایا کہ میں تمھیں ایک بات بتانے والا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں عجلت سے کام نہ لو بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کر لو،اس پر حضرت عائشہrrr ؓ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا بات ہے ؟چنانچہ آپﷺ نے سورة احزاب کی آیت ۸۲ تلاوت فرمائی۔حضرت عائشہrrr ؓ نے عرض کی ،یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں آپﷺ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟ ہر گز نہیں بلکہ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو ہی اختیار کرتی ہوں۔
حضور نبی کریم ﷺ کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپﷺ پر اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دینا واجب تھا ۔جیسا کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں بیان

امام مسلم ؒ اور اما م نسائی ؒ حضرت جابر rrrؓسے راوی ہیں کہ آپ ؓ نے فرمایا (ایک مرتبہ) حضرت ابو بکر صدیقrrr ؓ اور حضرت عمر فاروقrrr ؓ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ آپ ﷺ کی ازواج آپﷺ کے ارد گرد تشریف فرما تھیں اور حضور ﷺ خاموشی سے درمیان میں تشریف فرما تھے ۔اس وقت حضرت عمر فاروقrrr ؓ نے خیال فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ سے ضرور( کوئی ایسی )بات چھیڑتا ہوں (جس سے ) آپ ﷺ مسکراہٹ فرمائیں۔چنانچہ حضرت عمر فاروقrrr ؓ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ نے زید کی بیٹی اور عمرؓ کی بیوی کا حال ملا حظہ فرمایا۔وہ ابھی ابھی مجھ سے خرچ کا تقاضہ کر رہی تھی تو میں اس کی گردن مروڑ کر آ رہا ہوں اس پر آپﷺ نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا ،یہ جو میرے ارد گرد بیٹھی ہیں یہ بھی مجھ سے خرچ کا ہی مطالبہ کر رہی ہیں۔اس کے بعدحضرت ابو بکر صدیقrrr ؓ حضرت عائشہrrr ؓ کی تادیب کے لیے آ گے بڑھے اور حضرت عمر فاروقrrr ؓ حضرت حفصہؓrrr کی تادیب کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں صحابہ کرام ؓ فرماتے جاتے تھے کہ تم سرورِ کائنات ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو جو ان کے پاس نہیں ہے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا اور سب نے آپﷺ ہی کو اختیار فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اقدام کے صلہ میں ان کے لیے اجرِ عظیم عطا فرمایا،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا۔
٭ "تو بے شک اللہ نے تمھاری نیکی والیوں کے لیے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔"
امام ابن سعدؒ نے حضرت عمرو بن شعیبؓ سے ،انہوں نے اپنے والد محترم سے اور انہوں نے اپنے جد امجد حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی اختیار مرحمت فرمایا تو آپﷺ نے اسکی ابتدا حضرت عائشہ ؓ سے فرمائی تو قبیلہءبنو عامر کی ایک خاتون کے علاوہ سبھی نے آپ ﷺ کو اختیار فرمایا جبکہ عامریہ نے اپنی قوم کو اختیار کیا۔مغارقت کے بعد وہ کہا کرتی تھی کہ میں تو بد بخت ہوں اور اس کے بعد وہ اس حال کو پہنچ گئی تھی کہ مینگنیاں چن چن کو انہیں فروخت کیا کرتی تھی اور کبھی کبھار ازواج مطہرات کے گھروں میں جا کر مانگا بھی کرتی تھی اور ساتھ یہ کہا کرتی تھی کہ میں تو بد بخت ہوں ۔کہتے ہیں کہ عامریہ کے سواسب نے آپ ﷺ کو اختیار فرمایااور اس نے اپنے قبیلے کو اختیار کیا ، اس کے بعد وہ پاگل ہو کر انتقال کر گئی۔

ازواج مطہرات کا مہر

ام المو منین حضرت صفیہrrr ؓاور ام المومنین حضرت ام حبیبہrrr ؓ کے سوا تمام ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم تھا ۔حضرت صفیہ rrrؓ کا مہر ان کی آزا دی ہی قرار پایا۔جبکہ حضرت ام حبیبہrrr ؓ کا مہر چار سو دینار تھا۔جسے حضرت نجاشیؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے ادا کیا تھا۔

مسلم شریف میں بیان

"حضرت ابو سلمہrrr ؓ نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ rrrؓ سے دریافت کیا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا مہر کتنا تھا؟انہوں نے ارشاد فرمایاکہ حضور نبی کریم ﷺ کا مہر آپﷺ کی (اکثر) ازواج مطہرات کے لیے بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔پھر حضرت عائشہrrr ؓ نے فرمایا کہ جانتے ہو نش کیا چیز ہے؟میں نے کہا نہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ نصف اوقیہ۔تو سب مل کر پانچ سو درہم ہوئے"۔

پانچ درجات

حضور نبی کریم ﷺسے منسوب خواتین کے کل پانچ درجات ہیں۔
۱۔ جو نکاح میں آئیں اور آپﷺ سے پہلے حیاتِ طیبہ میں ہی وصال فرما گئیں۔ایسی ازواج مطہرات دو ہیں۔ایک حضرت خدیجہrrr اور دوسری حضرت زینب بنت خزیمہؓrrr۔
۲۔ جو نکاح میں آئیں اور حضور نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد وصال فرمایا ،ایسی ازورج مطہرات کی تعداد نو ہے۔
۳۔ وہ جن سے نکاح تو ہوا مگر دخول نہ ہوا ۔
۴۔ وہ جن کو نکاح کا پیام دیا مگر نکاح کی نوبت نہ آئی۔
۵۔ وہ جنہوں نے اپنے آپ کو حضور نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں بطور ہدیہ پیش کیا۔
آخری تین اقسام کی تعداد میں کافی اختلاف ہے اور علماءاس سے متفق نہیںہیں جبکہ متفق علیہ گیارہ ازواج مطہرات ہیں ۔

بالترتیب اسماءمبارکہءا زواج مطہرات

۱۔حضرت خدیجہ ا لکبریٰ ؓrrr
۲۔حضرت سودہ بنت زمعہ ؓrrr
۳۔حضرت عائشہ صدیقہ rrrؓ
۴۔حضرت حفصہ بنت عمر فاروق rrrؓ
۵۔حضرت زینب بنت خزیمہ ؓrrr
۶۔حضرت ام سلمہ بنت سہیلrrr ؓ
۷۔حضرت زینب بنت حجشrrrؓ
۸۔حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیانrrr ؓ
۹۔حضرت جویریہ بنت حارثrrr ؓ
۰۱۔حضرت صفیہ بنت حیی ابن ا خطب ؓrrr
۱۱۔حضرت میمونہ بنت حارث ؓrrr
ان ازواج مطہرات میں چھ قریش سے ہیں۔یعنی حضرت خدیجہ ا لکبریٰ rrrؓ،حضرت سودہ بنت زمعہ rrrؓ،حضرت عائشہ صدیقہ rrrؓ،حضرت حفصہ بنت عمر فاروقrrr ؓ،حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان rrrؓ،حضرت ام سلمہ بنت سہیلrrr ؓ۔چار عربیہ قریشیہ ہیں یعنی حضرت زینب بنت حجشrrr ؓ،حضرت جویریہ بنت حارثؓrrr،حضرت زینب بنت خزیمہ ؓrrr،حضرت میمونہ بنت حارثrrr ؓ۔جبکہ حضرت صفیہ rrrؓ غیر عربیہ ہیں جو بنی اسرائیل ،حضرت ہارون ؑ کی اولاد سے ہیں۔اس کے علا دہ پانچ جاریہ ہیں۔
۱۔حضرت ما ریہ قبطیہ بنت شمعونrrr ؓ
۲۔ریحانہ بنت زیدrrr ؓ
۳۔حضرت ام ایمنrrr ؓ
۴۔ حضرت سلمہ ؓrrr
۵۔حضرت برصویrrr ؓ
حضور نبی کریم ﷺ کی تمام ازورج مطہرات جیبہ تھیں،سوائے حضرت عائشہ rrrؓ کے جو دوشیزہ باکرہ تھیں۔

أم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ

عالی نسب ،حسین و جمیل ،بہت بڑی رئیسہءمکہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ جو تمام قریش میں بہ اعتبار مال و دولت سب سے بڑھ کر تھیں۔قریش کے اکابرین و اشراف اور اصحابِ دولت و ثروت آپ سے شادی کے خواست گار تھے۔اگر ہو سکتا تو قوم کے جتنے لوگ تھے سبھی آپ سے شادی کے خواہش مند تھے اور سب درخواست بھی پیش کر چکے تھے اور مال و زر بھی پیش کیے تھے۔

ولا دت با سعادت

سیدہ خدیجہ ؓ کی ولا دت پندرہ سال قبل عام الفیل قبیلہ بنو اسد میں ہوئی تھی۔جو قریش کی ایک نہایت معزز و با وجاہت شاخ تھی۔ان کے والد خولد بن اسد کا خاندان قصیٰ پر پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔مکہ میں آکر انہوں نے سکونت اختیار کی۔عبدالدار ابن قصیٰ جو انکے ابن عم تھے حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی جن کا تعلق بن عامر بن لوی سے تھا ۔خدیجہrrr ؓ نے انہی کے بطن سے جنم لیاتھا۔

صفاتِ سیدہ طاہرہ

جس گھریلو ماحول میں آکر انہوں نے آنکھ کھولی وہاں شرافت و نجابت ،امانت و دیانت ،راست گوئی و ایفائے عہد اور احساس ذمہ داری کی حکمرانی تھی۔مال و دولت کی بھی کمی نہ تھی لہذا خدیجہ بنت خویلدrrrؓ کے اندر غریب پروری ،صدقہ و خیرات ،جودو سخا ،فراخ دلی و عالی حوصلگی ،آداب و اخلاق ،عفت و حیا ،پاکیزگی ءخیال و افکار ،حلم و بردباری اور مستقل مزاجی کے اوصاف جلوہ گری کرنے لگے۔لہذا ان وجوہ کے بنا پر آپ عہد جاہلیت میں ہی طاہرہ کے لقب سے مشہور ہو گئیں۔

آپکے ازدواجی حالات

سیدہ خدیجہ rrrؓ جن صفات عالیہ سے متصف تھیں اسکی مناسبت سے ان کے والد نے چاہا کہ بیٹی کی شادی ورقہ بن نوفل سے ہو جائے جو ان کا برادرزادہ تھا۔علاوہ ازیں وہ تورات اور انجیل کا بہت بڑا عالم تھا۔شادی کی بات ہوئی بھی مگر بوجوہ یہ نسبت نہ ہو سکی۔اسکا آپ کے والد کو دکھ بھی تھا کیونکہ آپ اپنی نیک سیرت بیٹی کے لیے ایسا ہی شوہر چاہتے تھے جو نیک اور عالم فاضل ہو۔اسی دوران آپ کا رشتہ ابو ہالہ بن نیاس بن زرارہ تمیمی کے ساتھ طے پا گیا ۔اس کا اصل نام مالک تھا۔چنانچہ آپ کی پہلی شا دی ان سے ہوئی ،اور اللہ نے آپ کو دو فرزند عطا کیے۔ایک کا نام ہند اور دوسرا ابو ہالا ۔بعض روایات میں وارث بھی آیا ہے۔ہالا اس لیے درست ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہrrr ؓ کے شوہر کا نام مالک تھا مگر ابو ہالا کے نام سے مشہور ہوئے جو کہ ان کی کنیت تھی۔آپؓ کی زندگی نہایت خوش و خرم گزر رہی تھی کہ آپ کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔چنانچہ آپ نے اپنی توجہ اپنے دونوں بیٹوں کی جانب مکمل طور پر مرکوز کر دی۔
اسی عرصہ میں آپ کے والد کی نظر عتیق بن عائذ مخزومی پر پڑی۔اور آپ کو وہ اپنی بیٹی کے لیے نہایت موزوں نظر آیا۔لہذا سیدہ خدیجہrrr با لآخر عتیق کے حبا لہ عقد میں آئیں۔ان سے ایک بیشی نے جنم لیا جس کا نام ہند رکھا گیا۔
عر ب معاشرے میں یہ دو نام ایسے ہیں جہ مرد اور عورت دونوں کے رکھے جاتے ہیں۔ایک ہند اور دوسرا جویریہ۔کتب ہمیں بتاتی ہیں کہ حضرت خدیجہؓrrr کی کنیت ام ہند تھی۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ کے ان شوہر کا بھی انتقال ہو گیا۔اب آپ کی زندگی کا محور ایک بیٹی اور دونوں بیٹے تھے۔

حرب الفجار

الغرض آپکے والد اپنی بیٹی کے لیے ایک بار پھر پریشا ن ہو گئے۔انہیں دنوںمیں حرب الفجار کل آغاز ہوا۔جس میں ان کو شرکت کرنا پڑی۔اس جنگ کا پس منظر یہ تھاکہ نعمان بن منذر ہر سال حیرہ سے مشک و خوشبو یات دے کر عکاظہ بھیجا کرتا تھا۔اور اسے یہ ہدایت ہوتی تھی کہ واپسی میں اسکے عوض عین سے پوست ،رسیاں اور زر بفت لے آئے ۔اس سال نعمان نے براص کانانی سے بات کی تو اس نے کہا ۔
"میں آپکے قافلے کو اپنے قبیلے کی حمایت میں منزل مقصود تک پہنچا دوں گا۔“
دوسری طرف عروہ ہوازنی نے یہ وعدہ کیا۔”میں قافلے کو نجد کی طرف سے حجاز لے جاﺅں گا"۔
دونوں پیشکشوں میں سے نعمان بن منذر نے عروہ کی پیشکش قبول کی تھی۔یہ بات براض کنانی کو بہت نا گوار گزری ،شاطر آدمی تھا۔چنانچہ اس نے بدلہ کی نیت سے عروہ ہوازنی کا تعاقب کیا اور ایک مقام پر اسے تہ تیغ کر کہ قافلے کا مال و اسباب لوٹ لیا۔اور خیبر میں جا کر چھپ گیا ۔اس واقعہ کے بعد ایک شخص بشر بن ابو حازم نے قریش کو اطلاع دی کہ قبیلے ہوازن اپنے مقتول کا انتقام لینے کی فکر میں ہے ۔اس سے پہلے کہ قریش حرم کی حدود میں داخل ہوں ہوازنی ان پر ٹوٹ پڑے۔اور جنگ شروع ہو گئی۔بہر حال قریش کسی نہ کسی طرح حرم کی حدود میں داخل ہو گئے۔اور ہوازنیں کو مجبورا جنگ بند کرنا پڑی۔

zunera taji

CONTACT US

GET IN TOUCH!

"TAJUDDIN IS A SEA OF BENEFICENCE"

First official, approved & complete website of Taji Order of Hazrat Syed Mohammed Baba Tajuddin Aulia Nagpuri ra & Hazrat Amma Bibi Marium Taji Waliya ra. developed on the order of honorable, Grandfather (Hazrat Tajuddin Aulia ra) by UTT under the supervision of Khalifa-e-Tajulaulia Syedi Rafique.